Online Submissions
Already have a Username/Password for Bazyaft?
Go to Login
Need a Username/Password?
Go to Registration
Registration and login are required to submit items online and to check the status of current submissions.
Author Guidelines
Bazyaft accepts only unpublished articles. Manuscript must be in Urdu or English language, have an abstract in English language of 200-300 words, minimum 3 keywords in English. The Journal uses Turabian Manual Style. Only Microsoft Word files are accepted. There are no charges or fees of publication in Bazyaft. The reference must be added in metadata section of the article by author herself/himself. All published articles are assigned DOI numbers as identifiers, which can be seen in the metadata section of every article.
بازیافت کے مقالہ نگاروں کے لیے ضروری ہدایات
· مقالہ غیر مطبوعہ ہونا چاہیے نیز بازیافت میں مقالے کی اشاعت کا حتمی فیصلہ ہونے تک اسے اور کسی رسالے کو اشاعت کے لیے نہ بھیجا جائے۔
· مقالے کے پہلے صفحے پر مقالہ نگار کا نام، ادارہ، رہائشی پتا، رابطہ نمبر، ای میل پتا ضرور درج کیا جانا چاہیے۔ نیز مقالے کے غیر مطبوعہ اور سرقے سے پاک ہونے سے متعلق تصدیقی عبارت بھی دستخطوں کے ساتھ اسی صفحے کا حصہ ہونا ضروری ہے۔ (نمونے کی عبارت ہدایات کے اختتام پر دیکھی جا سکتی ہے۔)
· مضمون کا انگریزی عنوان بھی ساتھ ارسال کیا جانا چاہیے۔ متن سے پہلے انگریزی خلاصہ (Abstract)بھی شامل کیا جائے جو 100؍ سے 150؍ الفاظ پر مشتمل ہو۔ نیز کلیدی الفاظ (Keywords)بھی علیحدہ سے نشان زد کیے جانے چاہئیں۔
· مضمون کا عنوان 25 ؍پوائنٹ جبکہ متن 14؍ پوائنٹ میں جمیل نوری نستعلیق فونٹ میں کمپوز کیا جانا چاہیے۔
· ملخص اور کلیدی الفاظ 12 ؍پوائنٹ میں اور Book Antiqua فونٹ میں ہونے چاہئیں۔
· مقالہ براہِ راست MS Word میں کمپوز ہونا چاہیے۔ مضمون کا متن ان پیج (Inpage)میں کمپوز کر کے ایم ایس ورڈ (MS Word)میں منتقل نہ کیا جائے ۔
· مقالے کو بازیافت کی ویب گاہ پر اپلوڈ کیا جانا ضروری ہے۔
· مضمون کے ظاہری پیکر کی تراش خراش کے لیے MS Wordمیں نمونے کی ایک فائل بھی دی جارہی ہے۔ جس کی طرز پر مقالہ نگار اپنے مضامین دی گئی ہدایات کے مطابق کمپوز کر سکتے ہیں۔
· تین یا تین سے کم سطور پر مشتمل اقتباسات کو متن ہی میں واوین میں درج کر دیا جائے البتہ چار سطروں سے یا اس سے طویل اقتباسات 12؍ پوائنٹ میں متن سے قدرے خفی کر کے دونوں جانب اعشاریہ 65 ؍کا فاصلہ دے کر لکھے جائیں۔ ایسے مقامات پر اقتباسات کو واوین میں درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
· حوالوں کے لیے بازیافت کے طے کردہ انداز کی پیروی کی جائے۔ اس حوالے سے مفصل ہدایات ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ حوالہ نمبر فوق متن قلابین میں درج کیا جائے۔ جیسے کہ: (1)نیز حوالے 12 ؍پوائنٹ میں درج کیے جائیں ۔
· حوالے، اردو میں درج کرنے کے بعد رومن ہجوں میں بھی درج کیے جانے چاہئیں۔ (دیکھیے : نمونے کی فائل)
· رومن ہجوں میں حوالے درج کرتے ہوئے وقت نقلِ حرفی کے اصولوں کا خیال رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے نقلِ حرفی کا رہنما جدول (بہ شکریہ: بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد)بھی ویب سائٹ پر دیا جا رہا ہے۔
· حوالہ دینے کے لیے درج ذیل طریقۂ کار کی پیروی کی جائے:
کتاب
حوالے میں پہلی بار: اسد محمد خان، جو کہانیاں لکھیں(کراچی: اکادمی بازیافت، ۲۰۰۶ء)، ۸۱۔
دوسری بار: اسد محمد خان، جو کہانیاں لکھیں ، ص۱۵۔
اگر ایک ماخذ سے حوالے کے فوری بعد اسی ماخذ سے دوبارہ حوالہ دینا ہو تو : ایضاً، ص۴۳۔
ایک سے زیادہ مصنف: احمد ندیم قاسمی، محمد اجمل، خلیفہ عبدالحکیم، ثقافت کیا ہے(لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، ۱۹۸۲ء)، ۳۴۔
دوسری بار: قاسمی، اجمل، خلیفہ ، ثقافت کیا ہے، ص۱۲۔
مترجم، مرتب، مدون
حوالے میں پہلی بار: رتن ناتھ سرشار،مترجم، الف لیلہ(کراچی: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، ۲۰۱۱ء)، ۶۴۔
دوسری بار: سرشار، الف لیلہ، ص۱۰۲۔
مترجم، مرتب یا مدون مع مصنف
حوالے میں پہلی بار: میر امن۔ باغ و بہار،مرتبہ رشید حسن خان(لاہور: ادارہ فروغِ اردو، ۱۹۹۶)، ص۷۶۔
دوسری بار: میر امن۔ باغ و بہار،ص۸۷۔
اگر مرتب یا مترجم کی تحریر سے اقتباس لیا گیا ہے تو حوالے میں اس کا نام پہلے آئے گا۔
رشید حسن خان، ’’مقدمہ،‘‘باغ و بہار، میر امن(لاہور: ادارہ فروغِ اردو، ۱۹۹۶)، ۶۔
کتاب میں شامل مضمون یا باب
حوالے میں پہلی بار: شیخ محمد اکرام، ’’ثقافتِ پاکستان‘‘ مشمولہ سرسیدین پاکستانی ادب(پہلی جلد)، مرتبہ رشید امجد (راولپنڈی: فیڈرل گورنمنٹ سر سید کالج، ۱۹۸۱ء)، ۸۹۔
دوسری بار: شیخ اکرام ، ’’ثقافتِ پاکستان،‘‘ ص۸۴۔
رسائل
جلد کا نمبر رسالے کے عنوان کے ساتھ دیا جائے گا جب کہ شمارہ نمبر وقفے(،) کے بعد دیا جائے گا۔
حوالے میں پہلی بار: شیر محمداختر، ’’بدلتی قدریں،‘‘ نقوش، شمارہ ۲ (۱۹۴۸ء):۲۴۔
انتظار حسین، ’’الاؤ سے پرنٹنگ پریس تک،‘ ‘علامت۴ ،شمارہ ۳(مارچ ۱۹۹۵ء):ص۲۰۹۔
دوسری بار شیر محمداختر، ’’بدلتی قدریں،‘‘ص ۲۵۔
اگر کوئی مضمون کسی کتاب یا رسالے میں شامل ہے تو کتابیات میں مضمون کے تمام صفحات کے بارے آگاہی دینا ضروری ہوتا ہے، اس لیے مضمون کے پہلے اور آخری صفحے کی تفصیل دی جاتی ہے۔
اخبارات
حوالے میں پہلی بار: امر جلیل، ’’زوال،‘‘ روزنامہ جنگ،۲۵ جنوری ۲۰۱۵ء، ص۸۔
انٹر نیٹ سے لیے گئے اخباری کالم یا مضمون کا حوالہ
وجاہت مسعود، ’’اس سے پہلے کہ بوٹوں کے تسمے بات کریں،‘‘ روزنامہ جنگ،۲۹ ستمبر ۲۰۱۵ء۔
http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=09-29-2015/Lahore/images/08_07.gif
دوسری بار: امر جلیل، ’’زوال،‘‘ ص ۸۔
تبصرۂ کتب
حوالے میں پہلی بار: صبا اکرام، ’’باقر نقوی اور نوبیل امن کے سو برس،‘‘ تبصرہ نوبیل امن کے سو برس از باقر نقوی، تناظر، شمارہ۲(جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء): ۴۵۷۔
دوسری بار: صبا اکرام، ’’باقر نقوی اور نوبیل امن کے سو برس،‘‘ ص ۴۵۸۔
مقالہ
حوالے میں پہلی بار فوزیہ اسلم، ’’اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات،‘‘(مقالہ برائے پی ایچ ڈی، نمل ، ۲۰۰۵ء)، ۳۴۔
عبدالحق خان، ’’پاکستان میں اردو ناول،‘‘(مقالہ برائے ڈی فل، جامعہ سندھ، ۱۹۶۹ء)، ۲۹۔
دوسری بار فوزیہ اسلم، ’’اردو افسانے میں اسلوب اور تکنیک کے تجربات،‘‘ ص۵۶۔
خط، ای میل
خط یا ای میل کی متن میں ہی نشاندہی بہتر ہے (راقم کے نام خط میں احمد جاوید صاحب نے بتایا۔۔۔۔)اور کتابیات میں شاذ ہی ان کا ذکر آئے گا۔ حوالے کا نمونہ ملاحظہ ہو:
احمد جاوید، خط بنام راقم، ۲۰ نومبر ۲۰۲۱ء۔
سہیل عمر، ای میل بنام راقمہ، ۲ا فروری۲۰۲۰ء۔
ویب گاہ
انٹرنیٹ پر مواد عموماً تبدیلی سے گزرتا رہتا ہے اس لیے جس ماخذ کا حوالہ دینا ہو، جس دن کسی ویب گاہ سے وہ مواد لیا گیا ہے اس کا ذکر بھی حوالے میں کر دینا چاہیے۔